زمیں ہوگی کسی قاتل کا داماں ہم نہ کہتے تھے
اکارت جائے گا خون شہیداں ہم نہ کہتے تھے
علاج چاک پیراہن ہوا تو اس طرح ہوگا
سیا جائے گا کانٹوں سے گریباں ہم نہ کہتے تھے
ترانے کچھ دئیے لفظوں میں خود کو قید کر لیں گے
عجب انداز سے پھیلے گا زنداں ہم نہ کہتے تھے
کوئی اتنا نہ ہوگا لاش بھی لے جا کے دفنا دے
انہیں سڑکوں پہ مر جائے گا انساں ہم نہ کہتے تھے
نظر لپٹی ہے شعلوں میں لہو تپتا ہے آنکھوں میں
اٹھا ہی چاہتا ہے کوئی طوفاں ہم نہ کہتے تھے
چھلکتے جام میں بھیگی ہوئی آنکھیں اتر آئیں
ستائے گی کسی دن یاد یاراں ہم نہ کہتے تھے
نئی تہذیب کیسے لکھنؤ کو راس آئے گی
اجڑ جائے گا یہ شہر غزالاں ہم نہ کہتے تھے
غزل
زمیں ہوگی کسی قاتل کا داماں ہم نہ کہتے تھے
جاں نثاراختر