EN हिंदी
زمین عشق و وفا پہ اڑتی حکایتیں بھی نئی نہیں ہیں | شیح شیری
zamin-e-ishq-o-wafa pe uDti hikayaten bhi nai nahin hain

غزل

زمین عشق و وفا پہ اڑتی حکایتیں بھی نئی نہیں ہیں

ذاکر خان ذاکر

;

زمین عشق و وفا پہ اڑتی حکایتیں بھی نئی نہیں ہیں
لہو کی گردش میں رقص کرتی رفاقتیں بھی نئی نہیں ہیں

محبتوں کے یہ فیصلے تو خدائے برتر نے لکھ رکھے ہیں
کہاں تلک ہم بچائیں دامن یہ چاہتیں بھی نئی نہیں ہیں

اگرچہ دیکھے ہیں زلف و لب کے حسین سپنے تو کیا غلط ہے
نظر کے کھیتوں میں خواب بونے کی حسرتیں بھی نئی نہیں ہیں

بہار آتے ہی یوں لگا کہ چمن دریدہ دہن ہوا ہے
گلاب رت میں چمن پہ نازل یہ آفتیں بھی نئی نہیں ہیں

پتہ نہیں کیوں وہ خوش بہت ہے فضول مسند نشین ہو کر
سگان مسند کی فاتحانہ حماقتیں بھی نئی نہیں ہیں

جھکی نظر سے کلام کر کے اسیر کر لے وہ عاشقوں کو
نظر نظر میں نظر چرانے کی عادتیں بھی نئی نہیں ہیں

صنم کی اک اک ادا پہ ذاکرؔ نئی غزل کی ہے کیا ضرورت
شرارتیں بھی نئی نہیں ہیں نزاکتیں بھی نئی نہیں ہیں