زمیں دی ہے تو تھوڑا سا آسماں بھی دے
مرے خدا مرے ہونے کا کچھ گماں بھی دے
بنا کے بت مجھے بینائی کا عذاب نہ دے
یہ ہی عذاب ہے قسمت تو پھر زباں بھی دے
یہ کائنات کا پھیلاؤ تو بہت کم ہے
جہاں سما سکے تنہائی وہ مکاں بھی دے
میں اپنے آپ سے کب تک کیا کروں باتیں
مری زباں کو بھی کوئی ترجماں بھی دے
فلک کو چاند ستارے نوازنے والے
مجھے چراغ جلانے کو سائباں بھی دے
غزل
زمیں دی ہے تو تھوڑا سا آسماں بھی دے
ندا فاضلی