زمانے ٹھیک ہے ان سے بہت ہوئے روشن
مگر چراغ کہاں خود کو کر سکے روشن
سبھی کے ذہن میں اس کا خیال رہتا ہے
اس ایک نور سے ہے کتنے آئنے روشن
ابھی تو ہم کو کئی روز جگمگانا ہے
ہمیں ہے دشت میں اک آخری دئیے روشن
مہک اسی کی مری رہنمائی کرتی ہے
اسی کی چاپ سے ہوتے ہیں راستے روشن
ہم ایک عمر سے تاریکیوں میں سمٹے تھے
جب اس نے چھو لیا تو ہم بھی ہو گئے روشن
کسی کا عکس مجھے خواب میں دکھا تھا کبھی
تمام عمر رہے میرے رت جگے روشن
یے آدھی رات کو دستک سی کس نے دی دل پر
یہ کس نے کر دئیے ہر سمت قمقمے روشن
ہم ایک رخ سے اندھیرے میں آ گئے لیکن
کئی رخوں سے ہمارے ہیں سلسلے روشن
چلو دنیشؔ اب اس دل سے ان کا نور گیا
تلاشتے ہیں علاقے بچے کھچے روشن
غزل
زمانے ٹھیک ہے ان سے بہت ہوئے روشن
دنیش نائیڈو