زمانے پھر نئے سانچے میں ڈھلنے والا ہے
ذرا ٹھہر کہ نتیجہ نکلنے والا ہے
ابھی ہجوم عزیزاں ہے زیر تخت مراد
مگر زمانہ چلن تو بدلنے والا ہے
ہوئی ہے ناقۂ لیلیٰ کو سارباں کی تلاش
جلوس شہر کی گلیوں میں چلنے والا ہے
ضمیر اپنی تمنا کو پھر اگل دے گا
سمندروں سے یہ سونا اچھلنے والا ہے
نیا عذاب نئی صبحوں کی تلاش میں ہے
یہ ملک پھر نیا قاتل بدلنے والا ہے
صدائے صبح بشارت خبر سنائے گی
سلگ رہا ہے جو سینہ وہ جلنے والا ہے
نئے عذاب کی آمد ہے اور ہم ہیں وحیدؔ
عذاب دورۂ حاضر تو ٹلنے والا ہے
غزل
زمانے پھر نئے سانچے میں ڈھلنے والا ہے
وحید قریشی