EN हिंदी
زمانے پھر نئے سانچے میں ڈھلنے والا ہے | شیح شیری
zamane phir nae sanche mein Dhalne wala hai

غزل

زمانے پھر نئے سانچے میں ڈھلنے والا ہے

وحید قریشی

;

زمانے پھر نئے سانچے میں ڈھلنے والا ہے
ذرا ٹھہر کہ نتیجہ نکلنے والا ہے

ابھی ہجوم عزیزاں ہے زیر تخت مراد
مگر زمانہ چلن تو بدلنے والا ہے

ہوئی ہے ناقۂ لیلیٰ کو سارباں کی تلاش
جلوس شہر کی گلیوں میں چلنے والا ہے

ضمیر اپنی تمنا کو پھر اگل دے گا
سمندروں سے یہ سونا اچھلنے والا ہے

نیا عذاب نئی صبحوں کی تلاش میں ہے
یہ ملک پھر نیا قاتل بدلنے والا ہے

صدائے صبح بشارت خبر سنائے گی
سلگ رہا ہے جو سینہ وہ جلنے والا ہے

نئے عذاب کی آمد ہے اور ہم ہیں وحیدؔ
عذاب دورۂ حاضر تو ٹلنے والا ہے