زمانہ ہو گیا ہے خواب دیکھے
لہو میں درد کا شب تاب دیکھے
مناظر کو بہت مدت ہوئی ہے
نگاہوں میں نیا اک باب دیکھے
ستارہ شام کو جب آنکھ کھولے
اچانک چاند کو پایاب دیکھے
وہ چنگاری سی دے قربت کی مجھ کو
تو پھر سورج کی آب و تاب دیکھے
کئی راتیں ہوئیں کھڑکی میں گھر کی
تعلق کا نیا مہتاب دیکھے
میں لفظوں کی نئی فصلیں اگاؤں
وہ سناٹوں کے تازہ خواب دیکھے
میری آنکھوں میں ساون رنگ بھر دے
مجھے اے کاش وہ سیراب دیکھے
نہ وہ آوارگی کا شوق احمدؔ
نہ کوئی دشت کو بیتاب دیکھے

غزل
زمانہ ہو گیا ہے خواب دیکھے
احمد شناس