EN हिंदी
زمانہ ہے کہ گزرا جا رہا ہے | شیح شیری
zamana hai ki guzra ja raha hai

غزل

زمانہ ہے کہ گزرا جا رہا ہے

جلیلؔ مانک پوری

;

زمانہ ہے کہ گزرا جا رہا ہے
یہ دریا ہے کہ بہتا جا رہا ہے

وہ اٹھے درد اٹھا حشر اٹھا
مگر دل ہے کہ بیٹھا جا رہا ہے

لگی تھی ان کے قدموں سے قیامت
میں سمجھا ساتھ سایا جا رہا ہے

زمانے پر ہنسے کوئی کہ روئے
جو ہونا ہے وہ ہوتا جا رہا ہے

مرے داغ جگر کو پھول کہہ کر
مجھے کانٹوں میں کھینچا جا رہا ہے

بہار آئی کہ دن ہولی کے آئے
گلوں میں رنگ کھیلا جا رہا ہے

رواں ہے عمر اور انسان غافل
مسافر ہے کہ سوتا جا رہا ہے

سر میت ہے یہ عبرت کا نوحہ
محبت کا جنازہ جا رہا ہے

جلیلؔ اب دل کو اپنا دل نہ سمجھو
کوئی کر کے اشارا جا رہا ہے