زمانہ گزرا ہے طوفان غم اٹھائے ہوئے
غزل کے پردے میں روداد دل سنائے ہوئے
ہمیں تھے جن سے گناہ وفا ہوا سرزد
کھڑے ہیں دار کے سائے میں سر جھکائے ہوئے
ہمارے دل کے سبھی راز فاش کرتے ہیں
جھکی جھکی سی نظر ہونٹ کپکپائے ہوئے
ہمارے دل کے اندھیروں کا غم نہ کر ہم دم
ہمارے دم سے یہ رستے ہیں جگمگائے ہوئے
شمار روز و شب و ماہ کس نے رکھا ہے
ہزاروں سال ہوئے ان کو دل میں آئے ہوئے
گزرتے رہتے ہیں نظروں سے ساری شب ممتازؔ
ہزاروں قافلے یادوں کے سر جھکائے ہوئے

غزل
زمانہ گزرا ہے طوفان غم اٹھائے ہوئے
ممتاز میرزا