زمانہ اب یہ کیسا آ رہا ہے
کہ ہر بدمست سنبھلا جا رہا ہے
جلاتی ہے خرد شمعوں پہ شمعیں
اندھیرا ہے کہ بڑھتا جا رہا ہے
دعائیں کر رہے ہیں اہل ساحل
سفینہ ہے کہ ڈوبا جا رہا ہے
مگر بڑھتی نہیں ہے بات آگے
زمانہ ہے کہ گزرا جا رہا ہے
بھرا تھا رنگ جس خاکے میں برسوں
وہ خاکہ یک بہ یک دھندلا رہا ہے
محبت آپ ہی منزل ہے اپنی
نہ جانے حسن کیوں اترا رہا ہے
میں خود تصویر بنتا جا رہا ہوں
تصور میں مرے کون آ رہا ہے
کسی سے پھر محبت ہو رہی ہے
مجھے پھر پیار دل پر آ رہا ہے
نگاہ عشق کی وسعت نہ پوچھو
جہان حسن سمٹا جا رہا ہے
جدا اس کو نہ سمجھو کارواں سے
امامؔ اک بانکپن سے آ رہا ہے
غزل
زمانہ اب یہ کیسا آ رہا ہے
مظہر امام