زلزلہ آیا مکاں گرنے لگا
نیند میں اک خواب داں گرنے لگا
باپ کی رخصت کا لمحہ ہائے ہائے
اک گھنیرا سائباں گرنے لگا
وہ زمیں کی اور بڑھتا ہی رہا
آسماں پر آسماں گرنے لگا
ہالۂ طاق طلب میں دفعتاً
اک چراغ خوش گماں گرنے لگا
غزل
زلزلہ آیا مکاں گرنے لگا
شمائلہ بہزاد