زخموں کو مرے رنگ حنا دے گئی صبا
چاہا تھا کیا بہار میں کیا دے گئی صبا
پرواز کر رہی ہے خلاؤں میں روح بھی
اپنے مریض غم کو شفا دے گئی صبا
دشت جنوں کو گرد اڑی اور جم گئی
عریاں تھا میرا جسم قبا دے گئی صبا
دل کو اڑا کے لے گئی مانند بوئے گل
کانٹوں پہ لوٹنے کی سزا دے گئی صبا
یہ برق یہ حوادث دوراں فضول ہیں
میری فنا کو رنگ بقا دے گئی صبا
ٹوٹا نہ پھر بھی اس کے خیالوں کا سلسلہ
دل کے قریب آ کے صدا دے گئی صبا
سیلانیؔ اس بہار میں جاتے ہوئے ہمیں
مرجھائے گل غموں کی ردا دے گئی صبا

غزل
زخموں کو مرے رنگ حنا دے گئی صبا
سیلانی سیوتے