EN हिंदी
زخموں کو میرے دل کے سجاؤ تو بنے بات | شیح شیری
zaKHmon ko mere dil ke sajao to bane baat

غزل

زخموں کو میرے دل کے سجاؤ تو بنے بات

احسان جعفری

;

زخموں کو میرے دل کے سجاؤ تو بنے بات
یہ کام ہمیں کر کے دکھاؤ تو بنے بات

کیوں بحر تمنا میں نہیں کوئی بھی ہلچل
طوفان کوئی اس میں جگاؤ تو بنے بات

جینے کے لئے ان کا تصور بھی بہت ہے
بے آس ہمیں جی کے بتاؤ تو بنے بات

جلنے کو تو یوں خون بھی جل جائے گا لیکن
پانی میں ذرا آگ لگاؤ تو بنے بات

دنیا میں طلب ہی کا تماشہ تو لگا ہے
منصور ہمیں بن کے دکھاؤ تو بنے بات

گرتی ہوئی دیوار کا سایہ نہ بتاؤ
پھر سے نئی دیوار اٹھاؤ تو بنے بات