زخم پر رکھتا ہے مرہم آسماں نشتر سمیت
امن کا پیغام دیتی ہے ہوا خنجر سمیت
جب مرے ہمدرد نے بے دست و پا دیکھا مجھے
لے گیا میرے سمندر سے صدف گوہر سمیت
چار جانب آگ بھڑکائی گئی اس طور سے
اہل بینش کی نظر بھی جل گئی منظر سمیت
آسماں کی چھت زمیں کا فرش بخشتا جائے گا
گھر اجاڑے جائیں گے بنیاد کے پتھر سمیت
تیز رفتاری نے دنیا کی اڑایا یہ غبار
ہر سماں دھندلا گیا اس آئنہ پیکر سمیت
جل رہے ہیں جو لہو سے ان دیوں کے سامنے
ہار بیٹھے ہیں پرستاران شب صرصر سمیت
دیکھنا یہ آنسوؤں کی چند بوندوں کا کمال
لہلہا اٹھی ہے پتھریلی زمیں بنجر سمیت
میں نے تیرا نام لے کر جب رکھا تکیے پہ سر
سارا کمرہ خوشبوؤں سے بھر گیا بستر سمیت
مرغ کم ہمت فضائے بیکراں ہوتے ہوئے
آشیانے تک رہا محدود بال و پر سمیت
کل زمیں میرے مقابل وزن میں ہلکی پڑی
مجھ کو جب رکھا گیا پلرے میں چشم تر سمیت
اس تہی دستی میں ماہرؔ آبرو کا کیا سوال
ہم گنوا بیٹھے ہیں دستار فضیلت سر سمیت
غزل
زخم پر رکھتا ہے مرہم آسماں نشتر سمیت
ماہر عبدالحی

