زخم کوئی اک بڑی مشکل سے بھر جانے کے بعد
مل گیا وہ پھر کہیں دل کے ٹھہر جانے کے بعد
میں نے وہ لمحہ پکڑنے میں کہاں تاخیر کی
سوچتا رہتا ہوں اب اس کے گزر جانے کے بعد
کیسا اور کب سے تعلق تھا ہمارا کیا کہوں
کچھ نہیں کہنے کو اب اس کے مکر جانے کے بعد
مل رہا ہے صبح کے تارے سے جاتا ماہتاب
رات کے تاریک زینے سے اتر جانے کے بعد
کیا کروں آخر چلانا ہے مجھے کار جہاں
جمع خود کو کر ہی لیتا ہوں بکھر جانے کے بعد
زخم اک ایسا ہے جس پر کام اب کرتا نہیں
وقت کا مرہم ذرا سا کام کر جانے کے بعد
چپ ہیں یوں چیزیں کہ کھل کر سانس بھی لیتی نہیں
جیسے اک صدمے کی حالت میں ہوں ڈر جانے کے بعد
ہیں نواح دل میں شاہیںؔ کچھ نشیبی بستیاں
ڈوبتا رہتا ہوں ان میں پانی بھر جانے کے بعد
غزل
زخم کوئی اک بڑی مشکل سے بھر جانے کے بعد
جاوید شاہین