زخم اس زخم پہ تحریر کیا جائے گا
کیا دوبارہ مجھے دلگیر کیا جائے گا
اس کی آنکھوں میں کھڑا دیکھ رہا ہوں خود کو
کون سے پل مجھے تسخیر کیا جائے گا
میری آنکھوں میں کئی خواب ادھورے ہیں ابھی
کیا مکمل انہیں تعبیر کیا جائے گا
مجھ کو بیکار میں حیرت نے پکڑ رکھا ہے
شہر تو دشت میں تعمیر کیا جائے گا
تو نے دیکھا نہ کہیں مجھ کو نظر آیا ہے
ایسا منظر جسے تصویر کیا جائے گا
غزل
زخم اس زخم پہ تحریر کیا جائے گا
رمزی آثم