زخم ہی زخم ہیں دل پر کبھی ایسا تو نہ تھا
کرم یار کا نشتر کبھی ایسا تو نہ تھا
پھول جو مجھ کو دئے بن گئے وہ انگارے
وقت عیار و ستم گر کبھی ایسا تو نہ تھا
بستیاں راز کی اشکوں میں بہی جاتی ہیں
موجزن غم کا سمندر کبھی ایسا تو نہ تھا
آج دست طلب اٹھے تو قلم ہو جائے
دور محرومیٔ ساغر کبھی ایسا تو نہ تھا
آنے والے نہیں جب وہ تو یہ رونق کیسی
آج جیسا ہے مرا گھر کبھی ایسا تو نہ تھا
چھن گئی ہو نہ تجلی کہیں دیواروں سے
شور میخانے کے باہر کبھی ایسا تو نہ تھا
پاؤں رکھا تھا جہاں سرو میں خم ہے اب تک
جادۂ عشق میں پتھر کبھی ایسا تو نہ تھا
غزل
زخم ہی زخم ہیں دل پر کبھی ایسا تو نہ تھا
کوثر جائسی