EN हिंदी
زخم امید بھر گیا کب کا | شیح شیری
zaKHm-e-ummid bhar gaya kab ka

غزل

زخم امید بھر گیا کب کا

جون ایلیا

;

زخم امید بھر گیا کب کا
قیس تو اپنے گھر گیا کب کا

اب تو منہ اپنا مت دکھاؤ مجھے
ناصحو میں سدھر گیا کب کا

آپ اب پوچھنے کو آئے ہیں
دل مری جان مر گیا کب کا

آپ اک اور نیند لے لیجے
قافلہ کوچ کر گیا کب کا

میرا فہرست سے نکال دو نام
میں تو خود سے مکر گیا کب کا