EN हिंदी
زخم دل اب پھول بن کر کھل گیا | شیح شیری
zaKHm-e-dil ab phul ban kar khil gaya

غزل

زخم دل اب پھول بن کر کھل گیا

شعلہ ہسپانوی

;

زخم دل اب پھول بن کر کھل گیا
حاصل غم آج مجھ کو مل گیا

آج تک چلتا رہا جو ساتھ ساتھ
جانے اب وہ کون سی منزل گیا

ڈھونڈھتی پھرتی تھی جس کو زندگی
موت کے پہلو میں سویا مل گیا

قتل کر کے مجھ کو بے رحمی کے ساتھ
گھر تلک روتا ہوا قاتل گیا

آبلہ پا کون آیا تھا ادھر
سنگ رہ بھی پھول بن کر کھل گیا

ڈوبنے والوں سے رشتہ جوڑنے
دور تک بہتا ہوا ساحل گیا

شعلۂ جاں کا بھڑکنا دیکھ کر
اچھے اچھوں کا کلیجہ ہل گیا