زہر میں ڈوبی ہوئی سرخ حکایات میں گم
دل گرفتہ ہے ہوا موجۂ اصوات میں گم
منکشف ہوتا ہوا لمحۂ ماضی کا نشاں
آنکھ جھپکی تھی ہوا دود خرابات میں گم
شام کی ساعت اول میں فلک پر جا کر
ہم نے دیکھا ہے سمندر کو خیالات میں گم
اونگھتی رات کے ماتھے پہ چمکتی بندیا
دیکھ کر ہو گئی ندیا بھی سوالات میں گم
وہ جو اک لمحۂ حیراں تھا سبک رو تنہا
ہو گیا ہے تری آنکھوں کے طلسمات میں گم
مسکراتا پس تصویر تھا شائستہ سماں
جانے کیوں ہو گیا نادیدہ محاکات میں گم
وہ قرینہ جسے صدیوں نے کیا ہے پیدا
پھر نہ ہو جائے کہیں شورش جذبات میں گم
ڈھل گیا کیسے لرزتے ہوئے تاروں میں حمیدؔ
جو تھا آنسو مری پلکوں پہ مدارات میں گم
غزل
زہر میں ڈوبی ہوئی سرخ حکایات میں گم
ساجد حمید