EN हिंदी
زہر میں بجھے سارے تیر ہیں کمانوں پر | شیح شیری
zahr mein bujhe sare tir hain kamanon par

غزل

زہر میں بجھے سارے تیر ہیں کمانوں پر

اکرام مجیب

;

زہر میں بجھے سارے تیر ہیں کمانوں پر
موت آن بیٹھی ہے جا بجا مچانوں پر

ہم برائی کرتے ہیں ڈوبتے ہوئے دن کی
تہمتیں لگاتے ہیں جا چکے زمانوں پر

اس حسین منظر سے دکھ کئی ابھرنے ہیں
دھوپ جب اترنی ہے برف کے مکانوں پر

شوق خود نمائی کا انتہا کو پہنچا ہے
شہرتوں کی خاطر ہم سج گئے دکانوں پر

کس طرح ہری ہوں گی اعتماد کی بیلیں
جب منافقت سب نے اوڑھ لی زبانوں پر