زہر میں بجھے سارے تیر ہیں کمانوں پر
موت آن بیٹھی ہے جا بجا مچانوں پر
ہم برائی کرتے ہیں ڈوبتے ہوئے دن کی
تہمتیں لگاتے ہیں جا چکے زمانوں پر
اس حسین منظر سے دکھ کئی ابھرنے ہیں
دھوپ جب اترنی ہے برف کے مکانوں پر
شوق خود نمائی کا انتہا کو پہنچا ہے
شہرتوں کی خاطر ہم سج گئے دکانوں پر
کس طرح ہری ہوں گی اعتماد کی بیلیں
جب منافقت سب نے اوڑھ لی زبانوں پر
غزل
زہر میں بجھے سارے تیر ہیں کمانوں پر
اکرام مجیب