زہر کے گھونٹ بھی ہنس ہنس کے پیے جاتے ہیں
ہم بہرحال سلیقے سے جیے جاتے ہیں
ایک دن ہم بھی بہت یاد کئے جائیں گے
چند افسانے زمانے کو دئیے جاتے ہیں
ہم کو دنیا سے محبت بھی بہت ہے لیکن
لاکھ الزام بھی دنیا کو دئیے جاتے ہیں
بزم اغیار سہی ازرہ تنقید سہی
شکر ہے ہم بھی کہیں یاد کیے جاتے ہیں
ہم کیے جاتے ہیں تقلید روایات جنوں
اور خود چاک گریباں بھی سیے جاتے ہیں
غم نے بخشی ہے یہ محتاط مزاجی ہم کو
زخم بھی کھاتے ہیں آنسو بھی پیے جاتے ہیں
حال کا ٹھیک ہے اقبالؔ نہ فردا کا یقیں
جانے کیا بات ہے ہم پھر بھی جیے جاتے ہیں
غزل
زہر کے گھونٹ بھی ہنس ہنس کے پیے جاتے ہیں
اقبال عظیم