زہر ساعت ہی پئیں جسم تہ خاک تو ہو
سرد آنکھوں میں کوئی خواہش ناپاک تو ہو
ہم بھی روشن ہوں اتاریں یہ گناہوں کا لباس
تو برستے ہوئے پانی کی طرح پاک تو ہو
منجمد خون رگوں کا ہے اسے پی جائیں
رات کا زخم سیہ رنگ جگر چاک تو ہو
جسم خاکی سے بھی تنویر کا رشتہ ہے ضرور
سرخ شعلوں سے لپٹ جا خس و خاشاک تو ہو
آج پھر ذہن کی شاخوں پہ ہیں شعلوں کے گلاب
چشم سنگ ان کو بھی دیکھے ذرا نمناک تو ہو
غزل
زہر ساعت ہی پئیں جسم تہ خاک تو ہو
ظفر صدیقی