زد پہ آ جائے گا جو کوئی تو مر جائے گا
وقت کا کام گزرنا ہے گزر جائے گا
خود اسے بھی نہیں معلوم ہے منزل اپنی
جانے والے سے نہ پوچھو وہ کدھر جائے گا
آج اندھیرا ہے تو کل کوئی چراغ امید
مطلع وقت پہ سورج سا نکھر جائے گا
اس طرف آگ کا دریا ہے ادھر دار و رسن
دل وہ دیوانہ کہ جائے گا مگر جائے گا
کوئی منزل نہیں باقی ہے مسافر کے لیے
اب کہیں اور نہیں جائے گا گھر جائے گا
کوئے قاتل میں تہی دست کو جا ملتی نہیں
جو بھی جائے گا لیے ہاتھ میں سر جائے گا
کتنی تاریکی ہے شہر دل و جاں پر طاری
کوئی اندازہ نہیں کون کدھر جائے گا
ایک گلدستہ بنایا تھا پئے راحت جاں
اب یہ اندیشہ ہے ہر پھول بکھر جائے گا
ایک دن ایسا بھی قسمت سے ملے جب اسلمؔ
رقص کرتا ہوا محبوب نگر جائے گا
غزل
زد پہ آ جائے گا جو کوئی تو مر جائے گا
اسلم فرخی