ضبط نے بھینچا تو اعصاب کی چیخیں نکلیں
حوصلہ ٹوٹا تو احباب کی چیخیں نکلیں
وحشتیں ایسی المناک نتائج میں ملیں
جن کے امکان پہ اسباب کی چیخیں نکلیں
اس سے فرعون کے اخلاق نے مانگی ہے پناہ
اس سے شداد کے آداب کی چیخیں نکلیں
ڈوبنے والے نے کس عشق سے تن پیش کیا
شدت وصل سے گرداب کی چیخیں نکلیں
ایسے گفتار نے کردار کی خلعت نوچی
ماتھے لکھے ہوئے القاب کی چیخیں نکلیں
جو نہ لائی گئی اس تاب کی چیخیں نکلیں
منہ پہ پڑتے ہوئے تیزاب کی چیخیں نکلیں
لفظ ابھرے تو سماوات کے کنگرے ڈولے
اور جب ڈوبے تو محراب کی چیخیں نکلیں

غزل
ضبط نے بھینچا تو اعصاب کی چیخیں نکلیں
اکرام اعظم