ضبط کی قید سخت نے ہم کو رہا نہیں کیا
درد پہ درد اٹھا مگر شور بپا نہیں کیا
دنیا نے کیا نہیں کیا ہم نے گلہ نہیں کیا
سب سے برائی لی مگر تم کو خفا نہیں کیا
جو بھی مطالبہ ہوا عذر ذرا نہیں کیا
اب تو نہیں کہو گے تم وعدہ وفا نہیں کیا
عمر گزر گئی تمہیں اپنا نہیں بنا سکے
سہنے کو کیا نہیں سہا کرنے کو کیا نہیں کیا
ہاتھ میں اپنا ہاتھ دو آؤ ہمارا ساتھ دو
اس کا بھی دل تو تھا مگر دل کا کہا نہیں کیا
میں تو مریض عشق ہوں میری صحت صحت نہیں
اچھا مجھے نہیں کیا تم نے برا نہیں کیا
شاید وہ دن بھی آئے گا جس دن کہیں گے ہم سے وہ
انجمؔ میں شرمسار ہوں تیرا کہا نہیں کیا
غزل
ضبط کی قید سخت نے ہم کو رہا نہیں کیا
صوفیہ انجم تاج