ضبط کر غم کو کہ جینے کا ہنر آئے گا
بعد پت جھڑ کے بہاروں کا سفر آئے گا
راہ صحرا کی چلا ہے تو یہ بھی سن لے تو
سوچنا چھوڑ دے رستے میں شجر آئے گا
اتنا خوش بھی نہ ہو طوفان گزر جانے پر
یہ سمندر ہے یہاں پھر سے بھنور آئے گا
جس پہ ہر سمت سے ہی آتے رہے ہوں پتھر
کیسے اس پیڑ پہ پھر کوئی ثمر آئے گا
آئنہ ہونا ہی کافی نہیں ہے کمرے میں
صاف ہوگا وہ تبھی عکس نظر آئے گا
لے کے امداد کا جھوٹا سا بہانہ کوئی
مجھ کو اوقات بتانے وہ ادھر آئے گا
اپنے آغوش میں لے لوں گا ضیاؔ میں اس کو
رات کو چاند جو دریا میں اتر آئے گا
غزل
ضبط کر غم کو کہ جینے کا ہنر آئے گا
سبھاش پاٹھک ضیا