EN हिंदी
ضبط کر غم کو کہ جینے کا ہنر آئے گا | شیح شیری
zabt kar gham ko ki jine ka hunar aaega

غزل

ضبط کر غم کو کہ جینے کا ہنر آئے گا

سبھاش پاٹھک ضیا

;

ضبط کر غم کو کہ جینے کا ہنر آئے گا
بعد پت جھڑ کے بہاروں کا سفر آئے گا

راہ صحرا کی چلا ہے تو یہ بھی سن لے تو
سوچنا چھوڑ دے رستے میں شجر آئے گا

اتنا خوش بھی نہ ہو طوفان گزر جانے پر
یہ سمندر ہے یہاں پھر سے بھنور آئے گا

جس پہ ہر سمت سے ہی آتے رہے ہوں پتھر
کیسے اس پیڑ پہ پھر کوئی ثمر آئے گا

آئنہ ہونا ہی کافی نہیں ہے کمرے میں
صاف ہوگا وہ تبھی عکس نظر آئے گا

لے کے امداد کا جھوٹا سا بہانہ کوئی
مجھ کو اوقات بتانے وہ ادھر آئے گا

اپنے آغوش میں لے لوں گا ضیاؔ میں اس کو
رات کو چاند جو دریا میں اتر آئے گا