ضبط کر آہ بار بار نہ کر
غم الفت کو شرمسار نہ کر
جس کو خود اپنا اعتبار نہ ہو
ایسے انساں کا اعتبار نہ کر
اس کے فضل و کرم پہ رکھ نظریں
اپنے سجدوں کا اعتبار نہ کر
باغ اجڑنے کا غم ہی کیا کم ہے
جانے بھی دے غم بہار نہ کر
لوگ تجھ کو حقیر سمجھیں گے
حد سے زائد بھی انکسار نہ کر
وقت سے فائدہ اٹھا لیکن
وقت کا کوئی اعتبار نہ کر
لطف اٹھا بس نگاہ اول سے
ہر نظر کو گناہ گار نہ کر
جس سے فتنے بپا ہوں دنیا میں
ایسے غافل کو ہوشیار نہ کر
قدرؔ کو تو نے دی ہے جب عزت
اے خدا اس کو بے وقار نہ کر
غزل
ضبط کر آہ بار بار نہ کر
ابوزاہد سید یحییٰ حسینی قدر