ضبط نالہ دل فگار نہ کر
آگ کو اور شعلہ بار نہ کر
شب غم داغ دل کی شمع جلا
چاند تاروں کا انتظار نہ کر
شوق سے پھول چن چمن میں مگر
خار و خس کو ذلیل و خوار نہ کر
ماہ و انجم پہ ڈال بڑھ کے کمند
پست ذروں پر اپنا وار نا کر
گامزن ہو جو شوق منزل ہے
راہ کے پیچ و خم شمار نہ کر
اور پیدا کر اپنے خون سے پھول
رات دن ماتم بہار نہ کر
صبح کا ساز بھی تو چھیڑ ذرا
شام کا ذکر بار بار نہ کر
سرنگوں ہو نہ موت کے آگے
زندگانی کو شرمسار نہ کر
کچھ مزاج گل و سمن بھی سمجھ
صرف نظارۂ بہار نہ کر
آگ سے کھیلنا نہیں اچھا
بھول کر بھی کسی کو پیار نہ کر
دوسروں کا تو ذکر عشق میں کیا
اپنے دل پر بھی اعتبار نہ کر
خار کو بھی نظر میں رکھ رعناؔ
گل سے اندازۂ بہار نہ کر
غزل
ضبط نالہ دل فگار نہ کر
برج لال رعنا