EN हिंदी
ضبط غم کر بھی لیا تو کیا کیا | شیح شیری
zabt-e-gham kar bhi liya to kya kiya

غزل

ضبط غم کر بھی لیا تو کیا کیا

باسط بھوپالی

;

ضبط غم کر بھی لیا تو کیا کیا
دل کی رگ رگ سے لہو ٹپکا کیا

ہر تجلی آپ کی تصویر تھی
اس لئے میں ہر طرف دیکھا کیا

غم کے شعلے جان تک سرکش ہوئے
عشق سوز دل ہی کو رویا کیا

لوٹ لیں سب حسن کی خودداریاں
اے نگاہ واپسیں یہ کیا کیا

تھا تمہارے سامنے دل کو سکوں
پھر جو گھبرایا تو گھبرایا کیا

شام غم کی بڑھ گئیں تاریکیاں
اے چراغ آرزو یہ کیا کیا

کس سے پیمان محبت باندھئے
کون کس کا راستہ دیکھا کیا

آپ سے اب کیا کہیں اس کے سوا
آپ نے جو کچھ کیا اچھا کیا

حاصل غم بھی مٹا کر رکھ دیا
اے غم بے حاصلی یہ کیا کیا

تجھ پہ یہ الزام باسطؔ کم نہیں
پیار کی نظروں سے کیوں دیکھا کیا