زبانوں پر نہیں اب طور کا فسانہ برسوں سے
تجلی گاہ ایمن ہے دل دیوانہ برسوں سے
کچھ ایسا ہے فریب نرگس مستانہ برسوں سے
کہ سب بھولے ہوئے ہیں کعبہ و بت خانہ برسوں سے
وہ چشم فتنہ گر ہے ساقئ مے خانہ برسوں سے
کہ باہم لڑ رہے ہیں شیشہ و پیمانہ برسوں سے
نہ اب منصور باقی ہے نہ وہ دار و رسن لیکن
فضا میں گونجتا ہے نعرۂ مستانہ برسوں سے
چمن کے نونہال اس خاک میں پھولیں پھلیں کیونکر
یہاں چھایا ہوا ہے سبزۂ بیگانہ برسوں سے
یہ آنکھیں مدتوں سے خوگر برق تجلی ہیں
نشیمن بجلیوں کا ہے مرا کاشانہ برسوں سے
ترے قرباں ادھر بھی ایک جھونکا ابر رحمت کا
جبینوں میں گرہ ہے سجدۂ شکرانہ برسوں سے
سہیلؔ اب کس کو سجدہ کیجئے حیرت کا عالم ہے
جبیں خود بن گئی سنگ در جانانہ برسوں سے
غزل
زبانوں پر نہیں اب طور کا فسانہ برسوں سے
اقبال سہیل