زبانیں چپ رہیں لیکن مزاج یار بولے گا
کہ تو با ظرف ہے کتنا ترا کردار بولے گا
نئی نسلوں کو کس نے کیا دیا ہے دیکھیے لیکن
مرے اشعار میں تہذیب کا معیار بولے گا
وہ جس نے کھائے ہیں دھوکے محبت کر کے اپنوں سے
وہی تو خون کو پانی گلوں کو خار بولے گا
جہاں سچ بات کہنے کا ہو مطلب جان سے جانا
اسی محفل میں بس اپنا دل خوددار بولے گا
وہاں اعمال کو اپنے کوئی جھٹلا نہ پائے گا
کہ یہ حصہ بدن کا جب سر دربار بولے گا
کوئی مانے نہ مانے پر محبت ہی حقیقت ہے
ابھی میں کہہ رہا ہوں کل یہی اخبار بولے گا
اگر خاموش کر بھی دی زباں رسم محبت میں
سر محفل مگر شایانؔ کا کردار بولے گا
غزل
زبانیں چپ رہیں لیکن مزاج یار بولے گا
شایان قریشی