EN हिंदी
زباں پر شکوۂ دار و رسن لایا نہیں جاتا | شیح شیری
zaban par shikwa-e-dar-o-rasan laya nahin jata

غزل

زباں پر شکوۂ دار و رسن لایا نہیں جاتا

نظر برنی

;

زباں پر شکوۂ دار و رسن لایا نہیں جاتا
جو اپنا حال ہے دنیا کو دکھلایا نہیں جاتا

بڑی مشکل سے ملتا ہے جنون عاشقی یارو
جسے پا کر خرد کی گود میں جایا نہیں جاتا

رضائے دوست میں کچھ ایں و آں باقی نہیں رہتا
محبت کا کوئی فرمان ٹھکرایا نہیں جاتا

کسی سے ظلم بے جا کی شکایت ہو تو کیوں کر ہو
ستم یہ ہے کہ اپنا دل بھی اپنایا نہیں جاتا

جفا پیشہ حسینوں سے وفا کی کیا توقع ہے
مگر دل کو کسی عنوان سمجھایا نہیں جاتا

خرد کی بات سے آگے تعین سے بہت بالا
تصور آپ کر بھی لیں تو وہ آیا نہیں جاتا

ہزاروں بار موسیٰ طور پر جائیں تو کیا حاصل
یہ وہ جلوہ ہے جو ہر بار دکھلایا نہیں جاتا

وہاں پہنچا خدا کا ایک بندہ آن واحد میں
جہاں انسان کیا انسان کا سایا نہیں جاتا

نظرؔ کی ایک جنبش پر متاع ہوش لٹتی ہے
جو اس منزل میں کھویا ہے اسے پایا نہیں جاتا