زبان پر سبھی کی بات ہے فقط سوار کی
کبھی تو بات بھی ہو پالکی لئے کہار کی
گلوں کو تتلیوں کو کس طرح کرے گا یاد وہ
کہ جس کو فکر رات دن لگی ہو روزگار کی
بگڑ کے جس نے پا لیا تمام لطف زندگی
نہیں سنے گا پھر وہ بات کوئی بھی سدھار کی
وہ خوش رہے یہ سوچ کر سدا میں ہارتا گیا
کسی کے ساتھ جب لڑی لڑائی آر پار کی
جسے بھی دیکھیے اسے وہ توڑ کر ہی ہے بڑھا
کہاں رہیں ہیں دیش میں ضرورتیں قطار کی
تجھے پڑھا ہمیشہ میں نے اپنی بند آنکھوں سے
یہ داستان ہے نظر پہ روشنی کے وار کی
چڑھے جو اس قدر کہ پھر کبھی اتر نہیں سکے
تلاش زندگی میں ہے مجھے اسی خمار کی
غزل
زبان پر سبھی کی بات ہے فقط سوار کی
نیرج گوسوامی