EN हिंदी
زباں کو اپنی گنہ گار کرنے والا ہوں | شیح شیری
zaban ko apni gunahgar karne wala hun

غزل

زباں کو اپنی گنہ گار کرنے والا ہوں

سبودھ لال ساقی

;

زباں کو اپنی گنہ گار کرنے والا ہوں
خموش رہ کے ہی اظہار کرنے والا ہوں

میں کرنے والا ہوں ہر خیر خواہ کو مایوس
ابھی میں جرم کا اقرار کرنے والا ہوں

چھپانی چاہئے جو بات مجھ کو دنیا سے
اسی کا آج میں اظہار کرنے والا ہوں

وہ جس کے بعد مجھے کچھ نہیں ڈرائے گا
وہ انکشاف سر دار کرنے والا ہوں

مچی ہے کھلبلی ایسی نظر کے آنگن میں
کہ جیسے میں ترا دیدار کرنے والا ہوں

حیا کے رنگ سے گلزار ہو گیا چہرہ
پتہ ہے اس کو کہ میں پیار کرنے والا ہوں