EN हिंदी
زاویے فکر کے اب اور بناؤ یارو | شیح شیری
zawiye fikr ke ab aur banao yaro

غزل

زاویے فکر کے اب اور بناؤ یارو

شوق سالکی

;

زاویے فکر کے اب اور بناؤ یارو
بات کاغذ پہ نئے ڈھنگ سے لاؤ یارو

کر دیے سرد مسرت کی گھٹا نے جذبات
روح کو غم کی ذرا دھوپ دکھاؤ یارو

جنگ اخلاق و محبت سے بھی ہو سکتی ہے
اپنے دشمن پہ نہ تلوار اٹھاؤ یارو

جس کو ہر قوم کی تہذیب گوارا کر لے
ایسا دستور کوئی سامنے لاؤ یارو

انتہا نور کی آنکھوں میں نہ ظلمت بھر دے
روشنی حد سے زیادہ نہ بڑھاؤ یارو

میرا مقصد ہے ملاقات غرض کچھ بھی نہیں
مجھ کو اترے ہوئے چہرے نہ دکھاؤ یارو

منزلیں زیر قدم جلد سمٹ آئیں گی
جذبۂ شوقؔ ذرا اور بڑھاؤ یارو