ذات کی سیر پہ نکلوں مری ہمت ہی نہیں
اس بیاباں سے گزرنے کی جسارت ہی نہیں
زندگی میں نے قناعت کا ہنر سیکھ لیا
اب ترے ناز اٹھانے کی ضرورت ہی نہیں
کوئی شکوہ نہ شکایت نہ ستم ہے نہ جفا
ایک مدت سے تری ہم پہ عنایت ہی نہیں
جب بھی ملتے ہیں چمک اٹھتی ہیں آنکھیں ان کی
اور دعویٰ ہے انہیں ہم سے محبت ہی نہیں
دل تو کیا چیز ہے پتھر بھی پگھل جائے مگر
جذبۂ عشق میں تیرے وہ حرارت ہی نہیں
اپنے اشکوں سے بنا دیتے بیاباں کو چمن
کیا کریں ہم کو تو رونے کی اجازت ہی نہیں
معتبر بھی وہی ارباب نظر میں ٹھہری
جس کہانی میں کوئی حرف صداقت ہی نہیں
اس کی یاد آئی ہے مت چھیڑ مجھے باد صبا
تجھ سے پھر بات کروں گی ابھی فرصت ہی نہیں
گلشن دل پہ خزاؤں کا تسلط ہے نگارؔ
کوئی خواہش کوئی ارماں کوئی چاہت ہی نہیں
غزل
ذات کی سیر پہ نکلوں مری ہمت ہی نہیں
نگار عظیم