EN हिंदी
ذات کے کمرے میں بیٹھا ہوں میں کھڑکی کھول کر | شیح شیری
zat ke kamre mein baiTha hun main khiDki khol kar

غزل

ذات کے کمرے میں بیٹھا ہوں میں کھڑکی کھول کر

رشید نثار

;

ذات کے کمرے میں بیٹھا ہوں میں کھڑکی کھول کر
خود کو میں بہلا رہا ہوں اپنے منہ سے بول کر

صرف ہونٹوں کا تبسم زیست کا گلزار ہے
اب نہ دنیا کو دکھا اشکوں کے موتی رول کر

لفظ کی نازک صدا پر زندگی کا بوجھ ہے
بات بھی دنیا خریدے اس جہاں میں تول کر

اک جگہ ٹھہرے ہوئے ہیں سب پرانے واسطے
اپنی سوچوں کے مطابق زیست کا ماحول کر

راستہ تاریک جینے کی ضیا باریک ہے
رہ نہ جائیں چلتے چلتے تیرے پاؤں ڈول کر