ذات کے کمرے میں بیٹھا ہوں میں کھڑکی کھول کر
خود کو میں بہلا رہا ہوں اپنے منہ سے بول کر
صرف ہونٹوں کا تبسم زیست کا گلزار ہے
اب نہ دنیا کو دکھا اشکوں کے موتی رول کر
لفظ کی نازک صدا پر زندگی کا بوجھ ہے
بات بھی دنیا خریدے اس جہاں میں تول کر
اک جگہ ٹھہرے ہوئے ہیں سب پرانے واسطے
اپنی سوچوں کے مطابق زیست کا ماحول کر
راستہ تاریک جینے کی ضیا باریک ہے
رہ نہ جائیں چلتے چلتے تیرے پاؤں ڈول کر

غزل
ذات کے کمرے میں بیٹھا ہوں میں کھڑکی کھول کر
رشید نثار