EN हिंदी
ذات کا گہرا اندھیرا ہے بکھر جا مجھ میں | شیح شیری
zat ka gahra andhera hai bikhar ja mujh mein

غزل

ذات کا گہرا اندھیرا ہے بکھر جا مجھ میں

شکیل مظہری

;

ذات کا گہرا اندھیرا ہے بکھر جا مجھ میں
ڈوبتی شام کے سورج تو اتر جا مجھ میں

ابن آدم ہوں میں شہزادۂ تعمیر حیات
تو جو بگڑا ہو تو اے وقت سنور جا مجھ میں

پھر سے اک شکل نئی تجھ کو عطا کر دوں گا
اے مری زیست کسی روز تو مر جا مجھ میں

آئے اور بیت گئے کتنے ہی ساون لیکن
کوئی جذبہ کوئی بادل نہیں گرجا مجھ میں

سخت جانی پہ مری کرتی ہے دنیا حیرت
زندگی اپنا کوئی زہر ہی بھر جا مجھ میں

تیری پیراہن الفاظ سے تزئین کروں
اے مرے کرب ذرا دیر ٹھہر جا مجھ میں

روح کا دشت ہوں صحرائے تخیل ہوں میں
ہر طرف ایک اداسی ہے گزر جا مجھ میں

یہ صدائے پس انفاس کا پردہ کب تک
تو کہیں ہے تو تڑپ اور ابھر جا مجھ میں

رنگ ہوں گیت ہوں نغمہ ہوں میں خوشبو ہوں شکیلؔ
زیست ہی زیست ہے بکھری ہوئی ہر جا مجھ میں