ظالم یہ خموشی بے جا ہے اقرار نہیں انکار تو ہو
اک آہ تو نکلے توڑ کے دل نغمے نہ سہی جھنکار تو ہو
ہر سانس میں صدہا نغمے ہیں ہر ذرے میں لاکھوں جلوے ہیں
جاں محو رموز ساز تو ہو دل جلوہ گہہ انوار تو ہو
شاخوں کی لچک ہر فصل میں ہے ساقی کی جھلک ہر رنگ میں ہے
ساغر کی کھنک ہر ظرف میں ہے مخمور تو ہو سرشار تو ہو
کیونکر نہ شب مہ روشن ہو کیوں صبح نہ دامن چاک کرے
کچھ وصف رموز حسن تو ہو کچھ شرح جمال یار تو ہو
سینے میں خطائیں مضطر ہیں انعام کا وہ اقرار کریں
منصور ہزاروں اب بھی ہیں اے جوشؔ صلے میں دار تو ہو
غزل
ظالم یہ خموشی بے جا ہے اقرار نہیں انکار تو ہو
جوشؔ ملیح آبادی