زاہد نہیں مسجد سے کم حرمت مے خانہ
مستوں کی جماعت میں محراب ہے پیمانہ
کیوں زلف تری الجھی رہتی ہے اے جانانہ
حاضر ہے دل صد چاک درکار ہو گر شانہ
دیکھے جو تری صورت ہو جائے ہے دیوانہ
ہے عکس سے تجھ رخ کے آئینہ پری خانہ
اس دل کا مرے جلنا رکھتا ہے وہ کیفیت
دیکھے گا جو پروانہ ہو جائے گا مستانہ
اک نقد نگہ پر عشقؔ بکتا ہے تو کر سودا
دے بہر خریداری دیدار کا بیعانہ
غزل
زاہد نہیں مسجد سے کم حرمت مے خانہ
عشق اورنگ آبادی