زاہد اسیر گیسوئے جاناں نہ ہو سکا
جو مطمئن ہوا وہ پریشاں نہ ہو سکا
قید خودی میں آدمی انساں نہ ہو سکا
ذرہ سمٹ گیا تو بیاباں نہ ہو سکا
دامن تک آ کے چاک گریباں بھی رہ گیا
اندازۂ بہار گلستاں نہ ہو سکا
خون دل و جگر نہ تبسم بنا نہ اشک
مضمون آرزو کوئی عنواں نہ ہو سکا
مرنا تو ایک بار ہوا سہل بھی مگر
جینا کسی طرح کبھی آساں نہ ہو سکا
بڑھتا ہی جا رہا ہے زمانے کا اضطراب
دنیا کے درد کا کوئی درماں نہ ہو سکا
مستقبل حیات کے عرفاں سے میں نشورؔ
اس دور پر فریب کا انساں نہ ہو سکا

غزل
زاہد اسیر گیسوئے جاناں نہ ہو سکا
نشور واحدی