EN हिंदी
یوں ہی وابستگی نہیں ہوتی | شیح شیری
yunhi wabastagi nahin hoti

غزل

یوں ہی وابستگی نہیں ہوتی

ابن صفی

;

یوں ہی وابستگی نہیں ہوتی
دور سے دوستی نہیں ہوتی

جب دلوں میں غبار ہوتا ہے
ڈھنگ سے بات بھی نہیں ہوتی

چاند کا حسن بھی زمین سے ہے
چاند پر چاندنی نہیں ہوتی

جو نہ گزرے پری وشوں میں کبھی
کام کی زندگی نہیں ہوتی

دن کے بھولے کو رات ڈستی ہے
شام کو واپسی نہیں ہوتی

آدمی کیوں ہے وحشتوں کا شکار
کیوں جنوں میں کمی نہیں ہوتی

اک مرض کے ہزار ہیں نباض
پھر بھی تشخیص ہی نہیں ہوتی