یوں ہی عمر بھر ترے رنگ و بو سے مرے لہو کی وفا رہے
میں چراغ بن کے جلا کروں تو گلاب بن کے کھلا رہے
وہ زمین ہو کہ ہو آسماں یہ دیا ہمیشہ جلا رہے
میں کسی سفر میں رہوں مگر مرے ساتھ ماں کی دعا رہے
مری کمتری کی بساط ہی تری برتری کی دلیل ہے
میں نشیب میں نہ رہوں اگر تو فراز تیرا دبا رہے
نئے زخم ہیں نئی کونپلیں ابھی دل پہ غم کی بہار ہے
یہ دعا کرو کہ خزاں میں بھی یہ درخت یوں ہی ہرا رہے
غزل
یوں ہی عمر بھر ترے رنگ و بو سے مرے لہو کی وفا رہے
ارشد عبد الحمید