یوں ہی جلائے چلو دوستو بھرم کے چراغ
کہ رہ نہ جائیں کہیں بجھ کے یہ الم کے چراغ
ہر ایک سمت اندھیرا ہے ہو کا عالم ہے
جلاؤ خوب جلاؤ ندیم جم کے چراغ
جہاں میں ڈھونڈتے پھرتے ہیں اب خوشی کی کرن
کہا تھا کس نے جلاؤ حضور غم کے چراغ
وفا کا ایک ہی جھونکا نہ سہہ سکے ظالم
تری طرح ہی یہ نکلے تیری قسم کے چراغ
بجھا دئیے ہیں وہیں گردش زمانہ نے
جلائے جس نے جہاں بھی کہیں ستم کے چراغ
انہیں سے ملتی رہی منزلوں کی لو مجھ کو
بہت ہی کام کے نکلے رہ عدم کے چراغ
کنولؔ انہیں سے ملے روشنی کہیں شاید
جلا رہا ہوں یہی سوچ کر قلم کے چراغ
غزل
یوں ہی جلائے چلو دوستو بھرم کے چراغ
ڈی ۔ راج کنول