EN हिंदी
یونہی گر لطف تم لیتے رہوگے خوں بہانے میں | شیح شیری
yunhi gar lutf tum lete rahoge KHun bahane mein

غزل

یونہی گر لطف تم لیتے رہوگے خوں بہانے میں

رفعت سیٹھی

;

یونہی گر لطف تم لیتے رہوگے خوں بہانے میں
تو بسمل ہی نظر آئیں گے ہر سو اس زمانے میں

ذرا دم لو تو پھر تم کو سنائیں داستاں دل کی
ابھی کچھ رنگ بھرنا ہے ہمیں غم کے فسانے میں

لہو سے ہو گئی رنگین دیکھو آستیں اپنی
ہزاروں کوششیں کیں تم نے گو دامن بچانے میں

یہی کہہ کر اسیران قفس آنسو بہاتے ہیں
قفس میں وہ کہاں راحت ملی جو آشیانے میں

کچھ ایسا بے خودیٔ شوق نے بے حس بنایا ہے
اذیت اب نہیں محسوس ہوتی تیر کھانے میں

وہ برہم ہوں گے دنیا جان لے گی راز الفت کا
وفا پر حرف آ جائے گا دو آنسو بہانے میں

دوا کا وقت اب باقی نہیں ہنگام رخصت ہے
سدھاریں چارہ گر اب دیر کیا ہے نیند آنے میں

بلا سے بجلیاں گرتی ہیں دنیا پر گریں لیکن
مزہ ملتا ہے ان کو دم بدم یوں مسکرانے میں

مناسب ہے یہی رفعتؔ کہ باز آؤ محبت سے
ہے لازم جان کا خطرہ کسی سے دل لگانے میں