یوں ہی اکثر مجھے سمجھا بجھا کر لوٹ جاتی ہے
کسی کی یاد میرے پاس آ کر لوٹ جاتی ہے
میں بد قسمت وہ گلشن ہوں خزاں جس کا مقدر ہے
بہار آتی ہے دروازے سے آ کر لوٹ جاتی ہے
اسے اپنا بنانے میں بھی اک انجان سا ڈر ہے
دعا ہونٹوں تلک آتی ہے آ کر لوٹ جاتی ہے
میں اپنی قید کو ہی اپنی آزادی سمجھ لوں گا
رہائی مجھ کو زنجیریں لگا کر لوٹ جاتی ہے
اگر اتنی ہی سرکش ہے تو مجھ پہ کیوں نہیں گرتی
وحی بجلی جو میرا گھر جلا کر لوٹ جاتی ہے
وہاں پر بھی چراغ آرزو ہم نے جلائے ہیں
جہاں سے روشنی بھی سر جھکا کر لوٹ جاتی ہے
اسے میں دیکھ تو لیتا ہوں لیکن چھو نہیں پاتا
کوئی شے ہے جو میرے پاس آ کر لوٹ جاتی ہے
غزل
یوں ہی اکثر مجھے سمجھا بجھا کر لوٹ جاتی ہے
امتیاز خان