EN हिंदी
یوں تو زحمت سے لکھے جاتے ہیں ہم | شیح شیری
yun to zahmat se likhe jate hain hum

غزل

یوں تو زحمت سے لکھے جاتے ہیں ہم

نویش ساہو

;

یوں تو زحمت سے لکھے جاتے ہیں ہم
خیر مصرعوں میں کہاں آتے ہیں ہم

ذہن میں چیخیں رکھا کرتے ہیں پر
اس کی خاموشی سے گھبراتے ہے ہم

اب کریں جھگڑا مناسب ہی نہیں
عشق میں بوڑھے ہوئے جاتے ہیں ہم

ہوش میں آتے ہی ہو جاتے ہیں چپ
اور بے ہوشی میں چلاتے ہیں ہم

کس طرح کی وسعتیں رکھتا ہے تو
کس طرح تجھ میں سما پاتے ہیں ہم

اپنے آنگن میں پرندے دیکھ کر
جسم کی ٹہنی سے اڑ جاتے ہیں ہم

دکھ گناتی ہے وہ لڑکی عشق میں
پھر اسے کچھ دیر بہلاتے ہیں ہم

دیکھنا ہے کس کہانی کے لیے
کون سا کردار اپناتے ہیں ہم