یوں تو سب سامان پڑا ہے
لیکن گھر ویران پڑا ہے
شہر پہ جانے کیا بیتی ہے
ہر رستہ سنسان پڑا ہے
زندہ ہوں پر کوئی مجھ میں
مدت سے بے جان پڑا ہے
تبھی چلیں ہیں اس قافلے والے
جب رستہ آسان پڑا ہے
شاعر کانٹوں پر جیتا تھا
پھولوں پر دیوان پڑا ہے
میرے گھر کے دروازے پر
میرا ہی سامان پڑا ہے
یار شجرؔ دنیا کا فسانہ
کب سے بے عنوان پڑا ہے
غزل
یوں تو سب سامان پڑا ہے
سریندر شجر