یوں تو نہ تیرے جسم میں ہیں زینہار ہاتھ
دینے کے اے کریم مگر ہیں ہزار ہاتھ
انگڑائیوں میں پھیلتے ہیں بار بار ہاتھ
شیشہ کی سمت بڑھتے ہیں بے اختیار ہاتھ
ڈوبے ہیں ترک سعی سے افسوس تو یہ ہے
ساحل تھا ہاتھ بھر پہ لگاتے جو چار ہاتھ
آتی ہے جب نسیم تو کہتی ہے موج بحر
یوں آبرو سمیٹ اگر ہوں ہزار ہاتھ
درپئے ہیں میرے قتل کے احباب اور میں
خوش ہوں کہ میرے خون میں رنگتے ہیں یار ہاتھ
دامن کشاں چلی ہے بدن سے نکل کے روح
کھنچتے ہیں پھیلتے ہیں جو یوں بار بار ہاتھ
مٹتا نہیں نوشتۂ قسمت کسی طرح
پتھر سے سر کو پھوڑ کہ زانو پہ مار ہاتھ
ساقی سنبھالنا کہ ہے لبریز جام مے
لغزش ہے میرے پاؤں میں اور رعشہ دار ہاتھ
مطرب سے پوچھ مسئلہ جبر و اختیار
کیا تال سم پہ اٹھتے ہیں بے اختیار ہاتھ
میں اور ہوں علائق دنیا کے دام میں
میرا نہ ایک ہاتھ نہ اس کے ہزار ہاتھ
اے نظمؔ وصل میں بھی رہا تو نہ چین سے
دل کو ہوا قرار تو ہے بے قرار ہاتھ
غزل
یوں تو نہ تیرے جسم میں ہیں زینہار ہاتھ
نظم طبا طبائی