یوں تو میرا سفر تھا صحرا تک
پیاس لے آئی مجھ کو دریا تک
آئنہ سا اسے بنانے میں
بھول بیٹھا میں اپنا چہرہ تک
آنا جانا ہے اب بھی سانسوں کا
کر لیا زندگی سے جھگڑا تک
آپ منزل کی چھوڑیئے صاحب
میں نے ٹھکرا دیا ہے رستہ تک
نذر میں نے کیا ہے منظر کو
آنکھوں کے باد اب کلیجہ تک
غزل
یوں تو میرا سفر تھا صحرا تک
نشانت شری واستو نایاب